Christmas & Islam وہ دن گئے جب مسلمان غیر مسلم لوگوں کی تقریبوں یا عیدوں کے موقعہ پر شرکت کرنا تودرکنار اُنہیں " صنور" کہتے تھے یعنی کہ یہ ضلالت یا گمراہی کی یادگاریں ہیں۔مشرقِ وسطیٰ جن میں زیادہ تر عرب ممالک یعنی فلسطین شام اورملک مصر کے مسلمان اورمسیحی اپنے آپ کو ایک ہی قومیت نسل اورتہذیب سمجھتے ہیں۔بادی النظر میں وہاں مسلمان اور مسیحی میں تمیز کرنا محال ہوتاہے۔ جب بھی کوئی مسیحیوں کا تہوار ہوتا ہے تومسلمان بھی اُسے ایسا ہی مناتے ہیں جیساکہ اُن کے ہم وطن مسیحی مناتے ہیں۔ وہ اپنے مسیحی عزیزوں کے یہاں تحفے تحائف بھیجتے ہیں۔عید مبارک کے کارڈبھیجتے ہیں اوراُن میں سے بعض وسیع القلب توعبادتوں میں شرکت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جب کرسمس یعنی بڑے دن کی ایک عبادت میں مصر کے مشہور قومی لیڈر محمد نجیب شریک ہوئے اورلوگوں نے اُن سے مسیحی عبادت میں شرکت کرنے کی وجہ پوچھی تواُنہوں نے جواب دیا" میں خوشی سے مقدسہ کیتھرین کے مسجمہ کے آگے جھک گیا۔ اس میں کیا مضائقہ ہے۔ ہم مسلمان بھی تو کنواری مریم کووہی عظمت دیتے ہیں جو مسیحی دیتے ہیں۔ اگرہم اُسے بعض مسیحیوں کی طرح خدا کی ماں یا بعض کی طرح خدا کے بیٹے کی ماں نہیں کہتے۔ مگرہم اُنہیں مسیح کی والدہ توضرور سمجھتے ہیں۔ اورتم جانتے ہو کہ حضرت عیسیٰ بھی اپنے طریقہ کے مطابق خدا کے لئے ایسے مقرب تھے جیسے کہ اپنے طریقے کے مطابق حضرت محمد ہیں"۔
تہواروں یا عیدوں کے موقعہ پر شرکت کی بڑی وجہ ملکوں میں قومی تحریکوں کا پیدا ہوناہے۔ لہذا ایک ملک میں خواہ کتنے ہی عقائد کے لوگ کیوں نہ بستے ہوں اُنہیں اپنی قومی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے باہمی رواداری کو قائم رکھنا پڑتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کسی فرقے یا مذہب کا کوئی قوم یا مذہب پر یہ واجب ہوتاہے کہ وہ اس کی عالمگیر اہمیت سے اپنے ملک سے دوسرےلوگوں کو آشنا کردیں۔لہذا اگرکرسمس یا بڑے دن کو محض مسیحیوں کی جماعت تک محدود رکھا جائے تویہ ایک بے جان اوبے کارچیز ہے۔ اہلِ اسلام کو اس سے کیا فائدہ؟ ان کے ذمہ صرف رواداری رہ جائے گی اوروہ محض دکھاوے کی چیز ہے۔
مگر اسلام اورمسیحیت کا رشتہ صرف سیاسی یاعلاقائی نہیں۔ یعنی چونکہ سیاست میں مسلمانوں اورمسیحیوں کا اشتراک ہے۔ یایہ کہ وہ دنیا کے بعض خطوں یا ملکوں میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس لئے حقِ ہمسائیگی کوبرقرار رکھنے کے لئے انہیں ایک دوسرے کا پاس رکھنا چاہیے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان تاوقتیکہ وہ مسیح پر ایمان نہ لائے اورانجیل مقدس کو الہام الہٰی نہ سمجھے مسلمان نہیں ہوسکتا۔ جوتکریم اورعظمت انجیل میں مسیح کی ہوئی ہے ۔ وہی قرآن میں بھی ہوئی ہے۔ قرآن اپنے دعوؤں کی تصدیق میں جا بجا انجیل کے حوالے پیش کرتا ہے۔ جہاں ضرورت پیش آتی ہے ۔ ثبوت میں مسیح اوراس کے حواریوں کے اُسوہ حسنہ پیش کرتاہے۔ کم وبیش ان کی شان میں وہی کچھ کہا ہے جوانجیل میں کہا گیا ہے۔
بیتِ لحم میں پیدا ہونے والے سیدنا عیسیٰ کے متعلق قرآن مجید کی دوسورتوں آلِ عمران اورسورہ مریم میں بہت کچھ اُمواد پایا جاتاہے۔ آلِ عمران میں سیدنا مسیح کی والدہ حضرت مریم ، حضرت یوحنا اور سیدنا عیسیٰ کی پیدائش کا ذکر ہے۔ حضرتِ مریم بلاشبہ کنواری بتائی گئی ہے۔سیدنا عیسیٰ کی رسالت مصدقہ ہے۔ بقول مفسرین اور قرآن مجید حضرت مریم عمران کی بیٹی تھی۔اُن کی والدہ کا نام حنہ تھا۔ اُن کے والد عمران فوت ہوگئے اورحنہ نے اُنہیں خدا کی نذر کردیا۔ وہ اپنی بیٹی کے لئے دعا کرتی کہ اللہ تعالیٰ میری بیٹی کو شیطان الرجیم سے محفوظ رکھنا۔ یہی دعا حضرت یحییٰ کی والدہ نے بھی کی تھی۔اُنہوں نے بھی کہا تھا" سلام اُس دن پر جب میں پیدا ہوا "(سورہ ۱۹: ۱۵۔ ۲۳)اس کی تشریح کرتے ہوئے مشہورمفسرین بیضاوی فرماتے ہیں جب بھی کوئی نیا بچہ پیداہوتاہے توشیطان اُسے ضرور چھوتاہے۔اگرکوئی اس سے محفوظ رہاتا وہ حضرت مریم اوراس کا بیٹے سیدنا عیسیٰ تھے۔
حضرت مریم کی تقدیس اورطہارت کا قصہ یہیں ختم نہیں ہوتابلکہ قرآن میں یہاں تک آتاہے کہ جب حضرت مریم کو بیت المقدس میں لایا گیا تواماموں نے قلم پھینک کر اس پر قرعہ اندازی کی۔ قرعہ ذکریا کے نام نکلا اور وہی اس کا سرپرست مقرر ہوا گویا خدا نے وہاں بھی اُن کی حفاظت کا بندوبست کیا۔مفسرین اسلام کے نزدیک حضرت مریم کے معنی عابدہ کے آتے ہیں۔ یعنی وہ خدا کی بندی تھیں۔ اس محراب یا پناہ گاہ میں جہاں حضرت مریم بیت المقدس میں مقیم تھیں۔حضرت مریم کی خوراک اورپرورش کا بندوبست فوق الطبعی وسائل سے ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت ذکریاہ کوبھی جرات ہوئی اوراُنہوں نے بھی دعا کی کہ اُن کی بیوی کے یہاں بھی لڑکا پیدا ہو۔ بعد ازاں اُنہوں نے حضرت مریم کی خدمت کے لئے حضرت یوسف کی خدمات حاصل کیں کہ وہ چشمہ میں سے پانی لانے کے لئے حضرت مریم کی مدد کریں۔
ایسے ہی ایک موقع پر جب حضرت مریم چشمے پر اکیلی کھڑی ہوئی تھیں کہ اُنہیں آواز آئی ۔ اے مریم خدا نے تمہیں چن لیاہے۔اورتمہیں صاف کیا ہے۔ اس صفائی سے روح اور جسم دونوں کی صفائی مُراد تھی یعنی نہ تووہ انسان سے میں ہوئی تھی اورنہ ہی اُس میں برائی کا دخل تھا۔ " یا مریم ان اللہ اصطفاک وطورک اصطفاک علی نساء العالمین"۔ وہ بچہ جس کی بشارت دی گئی تھی وہ خدا کا کلمہ ہوگا اوراس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ مقامِ غور ہے" بکلمتہ منہ اسمنہ المسیح عیسیٰ ابن مریم وجیھا فی الدنیا والاومن المقربین"۔ اس جہان میں بھی صاحبِ جلوہ ہوگا اورآخرت میں صاحبِ جلوہ ہوگا۔ اورخدا کے مقربین میں سے ہوگا"۔ بکلمتہ منہ" کیا یہ وہی یوحنا والا ساتھ " کلام خدا کے ساتھ تھا اورکلام خدا تھا"۔ نہیں تھا؟ دیکھئے مسیحیت اوراسلام میں اس سے بڑھ کر اورکیا قرابت داری ہوسکتی ہے۔ کلمتہ منہ یا توصدائے ربی ہوگی یا امرربی ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ کی پیدائش بغیر کسی مادی وسیلے کے ہوئی یعنی اس کا کوئی جسمانی باپ نہیں تھا۔ ابنِ عربی اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں" ہر وہ چیز جوبغیر کسی دنیاوی وسیلے کے معرض وجود میں آتی ہے وہ اس کے تحت آتی ہے۔ کیونکہ خدا ہی کُن (ہوجا) کہتاہے اورفیکون یعنی ہوجاتی ہے۔ اوریہی عمل کلمتہ اللہ کا بھی تھا"۔ |